MIRZA GHALIB:
Mirza Beg Asadullah Khan also known as Mirza Ghalib was an Urdu and Persian poet of the 19th century Mughal and British era in the Indian Subcontinent. He was popularly known by the pen names Ghalib and Asad. His honorific was Dabir-ul-Mulk, Najm-ud-Daula. He is one of the most popular poets in Pakistan and India. Wikipedia
Born: December 27, 1797, Agra, India
Died: February 15, 1869, Gali Qasim Jan, Delhi, India
Spouse: Umrao Begum (m. 1810–1869)
Full name: Mirza Asadullah Baig Khan
Place of burial: Mazar-e-Ghalib
Parents: Mirza Abdullah Baig Khan, Izzat-ut-Nisa Begum
MEER MEHDI MAJROOH:
Real Name :Meer Mehdi Hasan Dehlavi
Died :15 May 1903
He was the son of Meer Husain Nigar. He would belong to Delhi and was one of the close disciples of Ghalib. During the turbulent period of 1857, he was forced to move to Panipat and Alwar. However, his last days were quite peaceful. His deewan was published in 1898 under the pen name Mazhar Maa’ni. The language of his poetry has simple use of phraces, but sometimes it does get complicated. His poetry is mature, though not fresh and modern.
VOICE: Jauhar Abbas
Presentation: Saeed Jafri
خط مرزا غالبؔ بنام میر مہدی مجروح
برخوردار کامگار میر مہدی،
قطعہ تم نے دیکھا، سچ مچ میرا حلیہ ہے۔ واہ اب کیا شاعری رہ گئی ہے۔ جس وقت میں نے یہ قطعہ وہاں کے بھیجنے کے واسطے لکھا ، ارادہ تھا کہ خط بھی لکھوں۔ لڑکوں نے ستایا کہ دادا جان! چلو کھانا تیار ہے، ہمیں بھوک لگی ہے۔ تین خط اور لکھے ہوئے رکھے تھے۔ میں نے کہا کہ اب کیوں لکھوں۔ اُسی کاغذ کو لفافے میں رکھ کر، ٹکٹ لگا ، سرنامہ لکھ، کلیان کے حوالے کر، گھر میں چلا گیا اور ہاں ایک چھیڑ بھی تھی کہ دیکھوں میرا میر مہدی خفا ہو کر کیا باتیں بناتا ہے۔ سو وہی ہوا۔ تم نے جلے پھپھولے پھوڑے۔ لو، اب بتاؤ خط لکھنے بیٹھا ہوں، کیا لکھوں؟ یہاں کا حال زبانی میرن صاحب کے سُن لیا ہو گا۔ مگر وہ جو کچھ تم نے سُنا ہو گا، بے اصل باتیں ہیں۔ پنسن کا مقدمہ کلکتے میں نواب گورنر جنرل بہادر کے پیشِ نظر، یہاں کے حاکم نے ایک رو بہ کاری لکھ کر اپنے دفتر میں رکھ چھوڑی ، میرا اس میں کیا ضرر۔یہاں تک لکھ چکا تھا کہ دو ایک آدمی آگئے۔ دن بھی تھوڑا رہ گیا۔ میں نے بکس بند کیا، باہر تختوں پر آ بیٹھا۔ شام ہوئی۔ چراغ روشن ہوا۔ منشی سید احمد حسین سرہانے کی طرف مونڈھے پر بیٹھے ہیں۔ میں پلنگ پر لیٹا ہوا ہوں کہ ناگاہ چشم و چراغِ دودمانِ علم و یقین سید نصیر الدین آیا۔ ایک کوڑا ہاتھ میں اور ایک آدمی ساتھ، اُس کے سر پر ٹوکرا، اُس پر گھاس ہری بچھی ہوئی۔ میں نے کہا اہا ہا ہا! سلطان العلما مولانا سرفراز حسین دہلوی نے دوبارہ رسد بھیجی ہے۔ بارے معلوم ہوا کہ وہ نہیں ہے۔ یہ کچھ اور ہے۔ فیضِ خاص نہیں، لطفِ عام ہے یعنی شراب نہیں آم ہے۔ خیر یہ عطیہ بھی بے خلل ہے، بلکہ نعم البدل ہے۔ ایک ایک آم کو ایک ایک سر بہ مُہر گلاس سمجھا۔ لیکور سے بھرا ہوا، مگر واہ کس حکمت سے بھرا ہے کہ پینسٹھ گلاس میں سے ایک قطرہ نہیں گرا ہے۔ میاں! کہتا تھا کہ یہ اسّی تھے، پندرہ بگڑ گئے، بلکہ سڑ گئے، تا اُن کی بُرائی اوروں میں سرایت نہ کرے۔ ٹوکرے میں سے پھینک دیے۔ میں نے کہا، بھائی، یہ کیا کم ہے۔ مگر میں تمھاری تکلیف اور تکلّف سے